کسی زمانے میں بغداد میں ایک بہت ماہر بڑھئی رہتا تھا- عمر کے آخر حصے میں اس نے ایک بہت خوبصورت منبر بنایا- بہت ہی حسین و دلکش، صدف اس پر جڑے ھوے، اخروٹ کی لکڑی کا بنا ہوا، بہت محنت سے تیار کیا ہوا- جو بھی دیکھتا اس کی خوبصورتی کو دیکھتے ھوے دانتوں میں انگلیاں دبا لیتا اور پھر اس منبر کی شہرت پھیلنے لگی- اتنی پھیلی کہ بغداد میں آنے والے ہر امیر شخص اس بڑھئی سے کہتا یہ منبر مجھے فروخت کر دو کہ فلاں مسجد کو عطیہ کر دوں گا- لیکن بڑھئی کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ” نہیں جناب یہ منبر مسجد اقصیٰ میں سجے گا”-
لوگ تعجب میں پڑ جاتے کہ بھائی مسجد اقصیٰ تو عیسائیوں کے قبضے میں ہے- بڑھئی سب کی باتیں سنتا اور پھر ایک ہی جواب دیتا ” میرا بس اتنا ہی کام تھا، میں ایک فنکار ہوں، منبر بناتا ہوں- کوئی بہادر جنگجو اٹھے گا اور القدس واپس حاصل کرے گا اور یہ منبر اس کی زینت بنے گا-
وقت یونہی گزرتا رہا- منبر کی کہانی شہر میں بچے بچے کی زبان پر آ چکی تھی- ہر کوئی منبر کی خوبصورتی بتاتے وقت اپنی طرف سے ایک کی دس بتاتا- پھر یہ کہانی سات آٹھ سال کے بچے نے سنی مگر وہ منبر کی خوبصورتی سے زیادہ اس کے بنانے والے کے جذبے سے متاثر ہوا- اور پھرچالیس (40) برس گزر گئے- اور پھر وہ منبر اسی بہادر کے ہاتھوں سے مسجد اقصیٰ میں نصب کر دیا گیا- لوگ اسے “صلاح الدین ایوبی” کے نام سے جانتے ہیں-
تو میرے مسلمان بھائیوں ہمارا کام بھی بس اتنا ہی ہے- ہمیں بھی اس بڑھئی کی طرح ایک منبر بنا کر رکھ دینا ہے اور پھر اسے اس کی منزل تک پہنچانے والا کوئی بہادر خود بخود ابھر کے سامنے آئے گا- الله ہم سب کا حامی و ناصر ہو- آمین
Leave a Reply