بہار کا موسم “بسنت تہوار” زندہ دلان لاہور کی ثقافتی پہچان تھا- ٩٠ کی دہائی میں یہ خوبصورت تہوار اپنے عروج پر تھا جب دن بھر آسمان رنگ برنگی پتگوں سے بھرا رہتا جبکہ رات “چاند رات” سے کہیں کم نہ لگتی- اندرون شہر کو دلہنوں کی طرح سجایا جاتا، ہر چھت پر چراغاں کی طرح روشنی کر کے پتنگ بازی کی جاتی، مہمانوں کو مدعو کیا جاتا، مختلف مزیدار روایتی کھانے پکائے جاتے اور نوجوان ٹولیاں پتنگ بازی کے ساتھ ساتھ تکے کباب سے بھی لطف اندوز ہوتے-
پھر لاہور کے اس ثقافتی تہوار کو کسی کی نظر لگ گئی بلکہ یوں کہنا درست ہو گا کہ پتنگ بازی سے منسلک کالی بھیڑوں نے اپنی لالچ، پیسے کی ہوس اور کم عقلی نے زندہ دلان لاہور کو اس عالمی میلے جیسے تہوار سے ہمیشہ کیلئے محروم کر دیا- وہ ڈور جو کبھی صرف مخالف کی پتنگ کاٹتی تھی اس نے انسانوں کے گلے کاٹنا شروع کر دیے، ہوئی فائرنگ نے قیمتی جانیں لینا شروع کر دیں جبکہ بسنت نائٹ کے نام پر دیگر خرافات نے جنم لیناشروع کر دیا-
دھاتی ڈور، ممنوعہ کیمکل کے بے دریغ استعمال اور حد سے زیادہ تیز “مانجے” نے اس تہوار کی خوبصورتی کو گہنا دیا اور یوں معصوم جانوں کے نقصان کے بعد عدالت نے اس ثقافتی تہوار پر پابندی عائد کرتے ہوئے لاہوریوں کو اس خوبصورت تہوار سے محروم کر دیا- آخری بار لاہوریوں کو بسنت تہوار 2007 میں منانے کا موقع ملا جب پنجاب حکومت نے صرف چند دن کے لئے پابندی ہٹا لی جبکہ 2008 اور 2009 میں جزوی طور پر اسے منایا گیا-
لیکن اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی بسنت تہوار اور پتنگ بازی لاہوریوں کے دلوں سے نکل نہیں سکیں اور ماضی کی ایک خوبصورت یاد بن کر آج بھی زندہ دلان لاہور کے دلوں کو گرماتی ہے اس امید کے ساتھ کہ شاید کبھی لاہور کا نیلا آسمان پھر سے رنگ برنگی پتنگوں سے سجے گا، پھر سے ویران چھتیں آباد ہوں گی، مہمانوں کو بلا کر روائتی کھانے پکائیں جائیں گے اور جب پتنگ کٹے گی تو فضاء میں “آئی بو کاٹا” گونج سنائی دے گی-
لیکن ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پتنگ بازوں میں موجود کالی بھیڑوں کو پکڑ کر سخت سزا نہ دی جائے جو آج بھی ڈور کو تلوار جیسی دھار بنا رہے ہیں اور ڈور کی مضبوطی کے نام خطرناک کیمکل کا استعمال کر رہے ہیں جو فیصل آباد، راولپنڈی سمیت دیگر شہروں میں استعمال ہو رہی ہے اور قیمتی جانوں کو نقصان پہنچا رہی ہے-
ایسے میں راولپنڈی کے رہاشی آصف محمود، جو اب برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں مقیم ہیں، لاہور میں کئی سالوں سے بسنت تہوار مناتے رہے انہوں نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ یہ سوال اٹھایا ہے کہ صرف زندہ دلان لاہور کو ہی کیوں بسنت جیسے تقافتی تہوار سے دور رکھا جا رہا ہے جبکہ ہر سال فیصل آباد، گوجرانوالہ اور راولپنڈی میں قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بسنت منائی جاتی ہے اور اگلے سال پھر سے بسنت کی تاریخوں کا اعلان کر دیا گیا ہے جو مختلف پرائیویٹ گروپس میں شیئر بھی ہو چکا ہے-
مانچسٹر میں مقیم پاکستانی شہریوں نے جہاں لاہور کی بسنت بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے وہیں قیمتی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے کچھ ایسی تجاویز بھی پیش کی ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف لاہوریوں کو پھر سے پتنگ بازی کے مزے مل سکتے ہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی ملے گا- وہ تجاویز درج ذیل ہیں:
١- انہوں نے وزیر اعظم عمران خان صاحب سے درخواست کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ پسنت تہوار پر پابندی ہٹاتے ہوئے شہری علاقوں کی بجائے کھلے مقامات میں پتنگ بازی کی اجازت دی جائے جہاں آبادی نہ ہو کیوں کہ لاہور سمیت پاکستان میں ایسی بہت ساری جگہیں ہیں جہاں پتنگ بازی کرنے سے کسی بھی قسم کا جانی یا مالی نقصان نہیں ہو گا-
٢- ڈور اور پتنگوں کے میعار کو بہتر بنانے کے لئے ایک جامع پالیسی وجود میں آنی چاہیے جس پر سختی سے عمل در آمد کیا جائے اور کالی بھیڑوں پر نظر رکھی جائے- خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے-
٣- جیسے بیرون ملک ساحل سمندر، صحراؤں اور ویران علاقوں میں پتنگ بازی ہوتی ہے اور سیف کائٹ فلائنگ پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے، اسی طرح راولپنڈی میں راول جھیل اور لاہور میں دریائے راوی کنارے اگر 2 دن کے لئے بسنت تہوار کی اجازت دی جائے اور اس فیسٹیول میں شرکت کے لئے ایک معمولی انٹری فیس رکھ دی جائے تو ایک اچھا کمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے-
٤- اس ثقافتی تہوار کو پھر سے بحال کر کے جہاں تفریح کا ایک زبردست موقع ملے گا وہیں بیرون ملک سے سیاح پھر سے لاہور کا رخ کریں گے جس سے ملک میں کثیر زر مبادلہ آئے گا اور مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا بلکہ یہ ایک انڈسٹری کی صورت اختیار بھی کر سکتی ہے-
٥- چونکہ پابندی ہر مسلے کا حل نہیں ہوتی اسلئے حکومت اور عوام کے باہمی تعاون اور اشتراک سے بسنت تہوار کو ہر سال سیف طریقے سے منایا جا سکتا ہے اور پتنگ بازی کے شوقین حضرات پھر سے آسمان میں اپنے جوہر دکھا سکتے ہیں-
Leave a Reply