یا اللہ اس ناشتہ پوانٹ پر رش لگا دے

ہماری فیکٹری کے قریب ایک ناشتہ پوائنٹ ہے۔ اکثر وہاں ناشتہ کرنے جاتے ہیں، کافی رش ہوتا ہے ناشتے والے کے پاس۔
میں نے کافی دفعہ مشاہدہ کیا کہ ایک شخص آتا ہے اور کھانا کھا کر بھیڑ کا فائدہ اُٹھا کر چُپکے سے پیسے دئیے بغیر ہی نکل جاتا ہے۔ ایک دن جب وہ کھانا کھا رہا تھا تو میں نے چُپکے سے ناشتہ پوائنٹ کے مالک کو بتا دیا کہ وہ والا بھائی ناشتہ کر کے بغیر بِل دئیے رش کا فائدہ اُٹھا کر نکل جاتا ہے، آج یہ جانے نہ پائے، آج اس کو رنگے ہاتھوں پکڑ لینا۔

میری بات سُن کر ناشتے والا مالک مُسکرانے لگ گیا اور کہنے لگا کہ اسے نکلنے دو، اسے کُچھ نہیں کہنا، بعد میں بات کرتے ہیں۔ حسبِ معمول وہ بھائی ناشتہ کرنے کے بعد ادھر اُدھر دیکھتا ہوا، جھانسہ دے کر چُپکے سے نکل گیا۔ میں نے ناشتے والے مالک سے پُوچھا کہ اب بتاؤ اُسے کیوں جانے دیا؟ کیوں اُس کی اس حرکت کو نظر انداز کیا؟

جو جواب اُس ناشتے والے مالک نے دیا وہ میرے چودہ طبق روشن کر گیا- کہنے لگا کہ اکیلے تُم نہیں بہت سے بندوں نے اس کو نوٹ کیا اور مجھے بتایا، نہ بھی کوئی بتاتا تو مجھے خُود بھی پتہ ہے اس کی اس حرکت کا ہمیشہ سے!

کہنے لگا کہ یہ سامنے بیٹھا رہتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ میری دوکان پر رش ہو گیا ہے تو چُپکے سے آ کر کھانا کھا کر نِکل جاتا ہے۔ میں ہمیشہ اس کو نظر انداز کر دیتا ہوں اور کبھی نہیں روکا، نہ پکڑا نہ کبھی بے عزت کرنے کی کوشش کی کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میری دوکان پر رش ہی اس بندے کی دُعا سے لگتا ہے۔ یہ سامنے بیٹھ کر دُعا کرتا ہو گا کہ یا اللہ اس ہوٹل پر رش لگا دے تاکہ میں اپنی کاروائی ڈال سکوں اور جب یہ آتا ہے تو سچ میں رش ہو جاتا ہے۔

میں اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اس دُعا اور قبُولیت کے معاملے میں ٹانگ اڑا کر اپنی بدبختی کو دعوت نہیں دینا چاہتا- یہ میری طرف سے نظر انداز ہی ہوتا رہے گا اور ہمیشہ ایسے کھانا کھاتا رہے گا تو بھی میں کبھی اس کو پکڑ کر بے عزت نہیں کروں گا۔


Posted

in

by

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *