پاکستان کے سیاسی مکار اور لاشعور عوام

پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے ۔سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور ان کے ترجمان مخالف سیاسی پارٹیوں کے خلاف بدعنوانی ،کرپشن، آئین کی خلاف ورزی اور توہین مذہب جیسے الزامات لگاتے رہتے ہیں جبکہ ان کی مخالف جماعت پھر اس سے دو چار ہاتھ آگے بڑھ کر انہی الزامات کے ساتھ ذاتیات کا بھی اضافہ کر دیتی ہے۔

ان حکومتی ترجمانوں کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے یہ آج حکومت میں ہوں گے اور کل جب یہ یہ ہواؤں کا رخ بدلتا دیکھیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ ان کے مخالفین کے حکومت میں آنے کے چانسز بڑھ گئے ہیں تو وہ اپنی حکومتی پارٹی کو کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہو جائیں گے ۔

یوں جب وہ پارٹی برسر اقتدار آئے گی تو یہی لوگ اس پارٹی کے ترجمان ہونگے۔ جو کل تک اپنے مخالف پارٹی پر طرح طرح کے الزامات اور گھٹیا بیانات دیا کرتے تھے آج انہی کے ترجمان بن کے اپنی گزشتہ پارٹی پر برس پڑتے ہیں۔

اس کی مثال ہم اس وقت پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے ترجمانوں کے موازنے سےلیتے ہیں۔اس وقت ن لیگ کی ترجمان عظمیٰ بخاری آج سے چند سال قبل پیپلز پارٹی کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ وہ اس دور میں میں ن لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف کو را کا ایجنٹ کہا کرتی تھیں۔

پھر وقت نے پلٹا کھایا اور انہوں نےن لیگ جوائن کرلی۔ آج وہ مسلم لیگ ن کی ترجمانی میں نواز شریف کے بارے میں ایک جملہ نہیں سن پاتیں۔ ادھر سے کسی مخالف نے میاں صاحب کے بارے میں میں کوئی بات کی یہ فورا مقابلے کے بیان دینے پہنچ جاتی ہیں ۔

اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری بھی آج سے چند سال قبل پیپلز پارٹی کا حصہ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی دور حکومت میں وہ آصف علی زرداری کے قصیدے پڑھا کرتے تھے۔ پھر وہ پارٹیاں بدلتے بدلتے تحریک انصاف کا حصہ بن گئے ۔آج وہ اپنی گزشتہ پارٹیوں کو تنقید کرنے پہ آئیں تو ہر حد عبور کر جاتےہیں۔

یہی نہیں سیاسی پارٹیاں اپنا مفاد دیکھتے دیکھتے اپنی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ کل تک وہ جس پارٹی کو ملک دشمن، کرپٹ اور خلاف آئین کہیں گی آج اسی پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنا بیٹھیں گے۔

مزید پڑھیں : پاکستان کی سیاسی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ

اس سارے عمل میں جس کو بیوقوف بنایا جاتا ہے وہ عوام ہے ۔ سیاست دانوں کے دو چہرے ہوا کرتے ہیں۔ عوام کے لیے ان کا چہرہ مختلف جبکہ آپس میں ان کا چہرہ مختلف ہوا کرتا ہے ۔

اکثر ٹاک شو پر بیٹھے مختلف پارٹیوں کی رہنما ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے کو آتے ہیں۔ تاہم شو ختم ہوتے ہی ایک دوسرے کو گلے ملنے لگ جاتے ہیں۔ اکٹھے چائے پیتے ہیں، کھانا کھاتےہیں۔

سیاستدانوں کی اسی منافقت کی وجہ سے آج ان پارٹیوں کے کارکن ایک دوسرے کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان نے ایسے بد قسمت واقعات بھی دیکھے ہیں جب سیاسی اختلاف پر بیٹے نے باپ کو، بھائی نے بھائی کو قتل کر ڈالا۔ یہی نہیں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ لوگ اب بچوں کی شادیوں کیلئے بھی سیاسی وابستگی کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

سیاستدان اسی اختلاف کا فائدہ اٹھا کر ووٹ بٹور کر آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں جبکہ ان کے کارکن رشتوں کی قدر بھول کر ان کیلئے لڑنے مرنےپہ اتر آتے ہیں۔

جس دن پاکستانی عوام کو انکا یہ منافقانہ چہرہ سمجھ آ گیا اور وہ سیاسی اختلافات بھلا کر ایک ہو گئے پاکستان کیلئے وہ دن حقیقی آزادی کا دن ہو گا۔