پاکستان کی سیاسی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ

پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیشہ سے بدبودار آرہی ہے .تحریک پاکستان میں شامل رہنماؤں کی وفات کے بعد پاکستانی سیاست میں‌ایسی گندگی داخل ہوئی جس آج تک ختم نہیں‌کیا جا سکا.

ملک بننے کے اوائل میں گورنر جنرل کے اختیارات پاکستانی سیاست کو داغدار کرتے رہے . گورنر جنرل کا نام سنتے ہی ہمارے سامنے گورنر غلام محمد کا نام آتا ہے جنہوں نے اپنی آمرانہ پالیسیوں کے باعث پاکستان کی سیاست کو بہت داغدار کیا.

گورنر جنرل کے اختیارات کی ا سی رسہ کشی نے ملک کو اس نہج پر کھڑا کر دیا کہ جلد ہی نومولود پاکستان مارشل لا کے ہاتھوں میں چلا گیا . اس کے بعد ملک کی سیاست پر ایسا وقت آیا کہ ہم ایک مارشل لاء سے نکلتے تو دوسرے میں داخل ہو جایا کرتے تھے.

اس کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ الیکشن آئے جنہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سب سے صاف شفاف الیکشن کہا جاتا ہے یعنی کہ 1970 کے الیکشن. یہاں سول مارشل لاء کی صورتحال اور اقتدار حق دار کو منتقل نہ کرنے کی پاداش میں پاکستان کو اپنے ایک حصے سے ہاتھ دھونا پڑا.

ابھی یہ زخم بھر انہ تھا کہ پاکستان پھر ضیاء‌الحق کے مارشل لاء سے دوچارہوگیا. اس مارشل لاءنے پاکستان کو ایسی پالیسیوں کے سپرد کیا جس کا خمیازہ آج کے دن تک وطن عزیز کی قسمت میں‌بھگتنا لکھا جا چکا ہے.

اس مارشل لاء سے نکلتے ہی نوے کی دہائی میں‌چار منتخب حکومتوں کو گھر بھیجا جاتا رہا. مزے کے بات یہ کہ اب کی بار اختیارت کی ضد صدر نے پکڑ رکھی تھی. پیپلز پارٹی حکومت میں ہوتی تو ن لیگ صدر سے مل کر حکومت کا خاتمہ کرتی اور خود اقتدار میں‌کود پڑتی.

پیپلزپارٹی اپوزیشن میں جاتے ہی صدر کے ساتھ مل کر ن لیگ کی حکومت گرا دیا کرتی تھی. ایسے میں پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا . پرویز مشرف نے مارشل لاء لگا کر ملک کے بلا شرکت غیر حکمران کا حلف اٹھا لیا.

اس دور میں ہم نے دشمن کی جنگ میں‌کود کر جو غلطی کی آج تک جانوں‌کے نذرانے دے کر اس غلطی کا ازالہ نہیں ہو پارہا.

مزید پڑھیں: کیا پاکستان دیوالیہ ہونے جارہا ہے؟

اس مارشل لاء کے بعد سے اب تک ملک میں جمہوری حکومتیں‌چل رہی ہیں لیکن پھر بھی آج تک کوئی وزیر اعظم مدت پوری نہیں کر سکا. وجہ؟ وجہ چند سیاسی کردار.

یہ سیاسی کردار چہرہ بدل کر ہر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں اور جب حکومت پر مشکل وقت آئے یہ نیا بھیس بدل کرنئی پارٹی میں آجاتے اورپھر سے الیکشن جیت کر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں.

سیاست کی پارلیمانی زبان میں‌انہیں الیکٹیبلزکا نام دیا جاتا ہے جبکہ غیر پارلیمانی زبان میں‌یہ لوٹے کہلائے جاتے ہیں.

حالیہ دنوں عمران خان کی وفاقی حکومت اور عثمان بزدار کی صوبائی حکومت بھی انہی سیاسی کرداروں کی بھینٹ چڑی تاہم اس بار خاموش رہنے کی بجائے عمران خان نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کا سہار الینے کا فیصلہ کیا.

اس آرٹیکل سے فلور کراسنگ کرنے والوں کو نااہل کر دیا جائے گا تاہم کتنی مدت کیلئے؟ یہ فیصلہ ابھی باقی ہے.

اس حوالے سے اپنے دور حکومت میں ہی عمران خان صدراتی ریفرنس کی تشریح کیلئے عدالت پہنچ گئے تھے. ساتھ ہی 63 اے کے تحت ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھی بھجوا دیئے گئے ہیں.

اس وقت پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کےہاتھ ہے. اگر سپریم کورٹ ان سیاسی کرداروں کی سیاست سے تاحیات نااہلی کا فیصلہ کر دے اور الیکشن کمیشن فیصلہ دینے میں‌سستی نہ برتے تو یہ کردار ہمیشہ سے پاکستان کی سیاست سے بے دخل ہو جائیں‌گے.

صرف افراد نہیں یہ نظریہ بھی مکمل دفن ہو جائے گا. اب پاکستان کا مستقبل ان دو اداروں کے ہاتھ ہے.