آج پنجاب اسمبلی کے دو الگ اجلاس کیوں‌ہونگے؟

بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ وفاق میں‌حکومت تبدیلی کا معاملہ گھمبیر ہوگا اور اس دوران بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملے گا لیکن وفاق سے زیادہ دلچسپ حالات اس وقت پنجاب میں ہیں.

اسمبلی میں تقریبا ہم پلہ حکومت اور اپوزیشن کےدرمیان مفاہمت نہ ہونے کے سبب منگل کے روز بھی بجٹ پیش نہ ہو سکا اور اس کے بعد آج بدھ کے روز دو دو اجلاس ہوں‌گے. ایک گورنر پنجاب کی جانب سے طلب کردہ اجلاس ایوان اقبال میں‌ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی زیر صدارت ہوگا جبکہ دوسرا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ‌کی صدارت میں ایوان میں ہوگا.

سوموار کے روز حکومت نے بجٹ پیش کرناتھا لیکن اپوزیشن نے انہیں ایسا نہ کرنے دیا. سپیکر قومی اسمبلی اور اپوزیشن اس بات پر بضد تھی کہ اراکین اسمبلی اور اسمبلی کے عملے پر جو تشدد ہوا اس پرمعافی مانگی جائے اور پرچے درج کیئے گئے ہیں‌وہ واپس لیئے جائیں‌اور آئی جی پنجاب اور سیکرٹری داخلہ ایوان میں‌آکر تمام رہنماؤں سے ایک ایک کرکے معافی مانگیں‌.

پی ٹی آئی سے ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں‌اسلم اقبال اور میاں محمود الرشید سمیت تمام رہنما اس بات پر قائم ہیں. ان کا مؤقف ہے کہ ان کی چادر چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا اس پر معافی مانگی جائے اور ذمہ داروں‌کو قرار واقعی سزا دی جائے.

اس پر منگل کے روز ہونے والے اجلاس میں بھی ڈیڈلاک برقرار رہا . حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کے کئی دور چلے اور چھے گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے.تاہم اپوزیشن کے چند رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہےکہ حکومت نے مقدمات واپس لینے کی یقین دہانی کرا دی ہے.

مزید پڑھیں: پنجاب آج وزیر خزانہ کے بغیر بجٹ پیش کرے گا

گزشتہ روز دوپہر ایک بجے ہونے والا اجلاس رات دس بجے شروع ہوا جس پر سپیکر قومی اسمبلی نے حکومتی رکن اویس لغاری کو بجٹ پیش کرنے کا کہا . اس پر حکومتی اراکین نے شور کر کے سپیکر کو بتایا کہ وہ بجٹ پیش نہیں‌کر سکتے گورنر نے اجلاس برخاست کردیا ہے.

سپیکر چوہدری پرویز الہیٰ‌نے مؤقف اپنایا کہ گورنر کے پاس یہ اختیار نہیں‌ہے. اس کے باوجود بھی بجٹ پیش نہ کیا جاسکا.

آج ایوان اقبال میں‌ہونے والے اجلاس میں بجٹ پیش کرنے کیلئے حکومت آئینی و قانونی ماہرین سے رائے لے رہی ہے جبکہ سپیکر اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ایوان میں‌آج اجلاس طلب کر رکھا ہے.

حکومت نےسپیکر کو ہٹانے کے لیئے بھی تیاری کر رکھی ہے اور پنجاب کے صوبائی اسمبلیوں‌کے حلقوں پر ہونے والے انتخابات کے بعد عددی اکثریت کو ملحوظ رکھ کر سپیکر کو ہٹایا جائے گا. دوسری جانب اپوزیشن نے بھی تیاری مکمل کر رکھی ہے.

پاکستان تحریک انصاف زیادہ سے زیادہ سیٹیں‌حاصل کرنے کیلئے دوڑ دھوپ کر رہی ہے تا کہ پنجاب اسمبلی میں‌اکثریت پا کر حمزہ شہباز کی حکومت کو گھر بھیج دیا جائے.

اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی سبطین خان کا کہنا تھا کہ سپیکر کا اختیار ہے وہ جب چاہیں‌آئی جی پنجاب اور سیکرٹری داخلہ کو طلب کر سکتے ہیں. حکومت اسے انا کامسئلہ نہ بنائے . ہمیں‌صوبے کی مشکلات کا ادراک ہے. ہم بلاوجہ بجٹ میں‌رکاوٹ نہیں‌ڈالنا چاہتے تاہم حکومت کو بھی تعاون کرنا چاہیے.