وادی ہنزہ کے 6 ہزار باشندوں کی زندگیاں بچانے والا قومی ہیرو

گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ ہمالیہ اور قراقرم پہاڑوں کے بیچ میں ایک دلکش ہیرے کی حثیت رکھتی ہے جبکہ 2010 کے زلزلے کے نتیجے میں بننے والی عطا آباد جھیل نے اس کے حسن میں چار چاند لگا دیے ہیں-

تاہم اس خوبصورت جھیل کی کہانی اس ہیرو کا ذکر کیے بغیر ادھوری ہے جس نے وادی ہنزہ کے گاؤں عطا آباد کے 6 ہزار باشندوں کی بروقت زندگیاں بچائیں –

سال تھا 2009ء جب جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عدنان عالم اعوان کو پراجیکٹ ملا کہ ہنزہ کے قریب پہاڑوں میں کچھ موومنٹ دیکھی گئی ہے اور آپ اس جگہ کا سروے کریں ۔ عدنان عالم اعوان اپنی ٹیم کے ہمراہ ہنزہ پہنچے ۔ چند ماہ اس علاقے میں رہ کر اپنا سروے مکمل کیا اور اپنی رپورٹ اپنے ادارے اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو بھجوائی۔

عدنان عالم اعوان کی رپورٹ کے مطابق ہنزہ کے گاوں عطاء آباد کے قریب ایک پہاڑ اپنی جگہ سے سرک رہا ہے اور اندازہ ہے کہ بہت جلد یہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ کر نیچے وادی کی طرف لینڈ سلائیڈ کی صورت میں گر جائے گا ۔ وادی میں واقع گاوں اور دیگر قریبی آبادیوں کو فوری طور پر اس جگہ سے ہٹا دیا جائے۔

رپورٹ ملنے کے بعد این ڈی ایم اے حرکت میں آئی اور عطا آباد گاوں اور دیگر ملحقہ ڈیرہ جات کو یہاں سے دوسرے علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ۔ چار جنوری 2010ء کو عطا آباد کے قریب یہ پہاڑ اپنی جگہ سے حرکت میں آیا اور یہ پہاڑ نیچے گر گیا۔

اس جگہ پر وادی ہنزہ ایک تنگ درے کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ پہاڑ گرنے سے دریائے ہنزہ کا قدرتی بہاو رک گیا اور یوں کئی کلو میٹر طویل ایک جھیل وجود میں آئی۔ شاہراہ قراقرم کئی کلو میٹر تک زیرِ آب آ گئی۔ اس علاقے میں 170 سے زائد مکانات تھے جو اس جھیل میں ڈوب گئے۔ جبکہ چھ ہزار سے زائد افراد کو پہلے ہی منتقل کر دیا گیا تھا۔

وادی سون کے فرزند عدنان عالم اعوان کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ چیئر مین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے عدنان عالم اعوان کا نام صدارتی ایوارڈ برائے حُسنِ کارکردگی کیلئے نامزد کیا گیا- اسسٹنٹ ڈائریکٹر عدنان عالم اعوان نے ایک بین الاقوامی جیالوجیکل ادارے کے ساتھ ایک اور ریسرچ مکمل -کی ہے، جس کی رپورٹ جلد ہی پبلش کی جا رہی ہے- یہ رپورٹ تہلکہ خیز ثابت ہونے والی ہے

Comments

One response to “وادی ہنزہ کے 6 ہزار باشندوں کی زندگیاں بچانے والا قومی ہیرو”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *