لاہور (ویب ڈیسک):
تیرہویں صدی کے آغاز میں صحرائے گوبی سے چنگیز خان کی قیادت میں خونخوار منگول قوم کا ایسا طوفان اٹھا جس نے چین، خوارزم ، وسط ایشیا ، مشرق وسطیٰ اور مغربی یورپ میں ایسی تباہی مچائی جو انسانی تاریخ نے اس سے پہلے کبھی نہ دکھی تھی –
اس طوفان نے سب سے زیادہ تباہی مسلم ریاستوں میں مچائی جس کا آغاز خوارزم کی ریاست سے ہوا اور 1258 میں بغداد جیسے تاریخی اور تقافتی مرکز کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی – منگول لشکروں نے شہر میں ایسی تباہی مچائی کہ گھوڑوں کے پاؤں خون میں ڈوب گئے –
اس تباہی نے مسلم ریاستوں کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا اور مسلمانوں کی جان ، مال اور آبرو کی حفاظت کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا تھا – ایسے میں منگولوں کا اگلا ہدف مصر کی مملوک سلطنت تھی جس ان ظالم لٹیروں اور مسلمان کے سیاسی خاتمے میں آخری رکاوٹ بن کر کھڑی تھی اور مملوکوں کے خاتمہ کا مطلب مسلمانوں کے روحانی مراکز مکہ اور مدینہ کی تباہی تھی-
مملوکوں کو اس خطرے کا احساس تھا اور اس سے نبٹنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی تھی – آخر وہ لمحہ آن پہنچا جس نے مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنا تھا – مہینہ رمضان کا تھا اور میدان جنگ ‘ عین جالوت’ کا تاریخی مقام – یہ وہی مقام ہے جہاں حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا تھا –
مملوک مسلمانوں کی قیادت سلطان رکن الدین بیبرس کر رہے تھے جو ایک بہادر ،جرات مند اور جنگی جالوں کے ماہر سپہ سالار تھے- لیکن اس جنگ سے کچھ دن پہلے ایسا واقعہ ہوا جس کے ذکر کے بغیر یہ داستان ادھوری تصور کی جائے گی – چنگیز خان کا پوتا ہلاکو خان جس نے بغداد شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا وہ 1260 میں اپنی 3 لاکھ 60 ہزار فوج کے ہمراہ مصر کی مملوک ریاست پر حملہ کے لئے بالکل تیار بیٹھا تھا جبکہ دوسری جانب مسلمانوں کی تعداد بمشکل 20 ہزار کے غریب –
ایسے میں ایک واقعہ نے تاریخ رخ بدل کر رکھ دیا – الله رب العزت کی طرف سے براہ راست مداخلت ہوتی ہے کہ ہلاکو خان کا باپ مر جاتا ہے جبکہ اس کا بھائی ‘برکہ خان’ جو روس اور یورپ میں پیش قدمی کر رہا ہوتا ہے وہ مسلمان ہو جاتا ہے- چناچہ ہلاکو خان کو واپس منگولیا لوٹنا پڑتا ہے اور اپنے ساتھ 3 لاکھ فوج واپس لے جاتا ہے- اب مقابلہ 60 ہزار منگولوں اور 20 ہزار مسلمانوں کے درمیان ہوتا ہے جو کافی حد تک متوازن ہو جاتا ہے-
جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو منگول بہت شدت سے حملہ کرتے ہیں لیکنسلطان رکن الدین بیبرس جنگی چالوں میں بہت مہارت رکھتے تھے لہٰذا ایک چال کے تحت مسلمان فوجیں ایک تنگ گھاٹی کی جانب پسپا ہوئیں- جب منگولوں نے ان کا پیچھا کیا اس گھاٹی میں پہنچ کر ان کی واپسی کا رستہ بند کر دیا- سلطان نے گھاٹی پر بہترین تیر انداز بیٹھا رکھتے تھے جبکہ پیچھے سے آنے والے دستوں نے بھی زور دار حملہ کیا- اس جنگ کی دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ پہلا موقع تھا کا کسی جنگ میں دستی بم جیسے آتشی گولے استعمال کیے گئے جنہوں نے منگولوں کے گھوڑوں کو خوفزدہ کر دیا تھا اور میدان میں چاروں طرف آگ کے شعلے بھڑک اٹھے – دشمن اب پوری طرح شکنجے میں آ چکا تھا اورمسلمان سپاہیوں نے منگول لشکر کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا –
یوں سلطان رکن الدین بیبرس کی بہترین جنگی حکمت عملی نے جہاں مسلمانوں کو ایک تاریخی فتح سے ہمکنار کیا وہیں مسلمان دنیا میں دشمن سے لڑنے کی ہمت پیدا ہوئی جو منگولوں کو الله کا عذاب سمجھ بیٹھے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ان کو شکست دینا نا ممکن ہے – شام اور عراق کے مسلمانوں نے مزاحمت شروع کی اور بہت سے علاقے واپس حاصل کار لئے – عین جالوت کے فیصلہ کن معرکہ کے بعد مسلمانوں اور منگولوں میں اور بھی بہت سے معرکے ہوئے لیکن تاریخ میں ان کا خاطر خواہ ذکر نہیں ملتا –
تاہم یہی وہ معرکہ ہے جسے تاریخ دان مسلمانوں کی بقا کی جنگ بتاتے ہیں اور یہی وہ معرکہ ہے جس نے مکہ اور مدینہ کو منگول لٹیروں کے ہاتھوں بچا لیا – اس معرکہ کے بعد سلطان رکن الدین بیبرس نے اپنی توجہ صلیبیوں کی طرف کی اور پے در پے قلعے فتح کرتا ہوا صلیبیوں کو ہمیشہ کے لئے مشرق سے نکال دیا اور تمام صلیبی بازنطینی سلطنت قسطنطنیہ (استنبول کا پرانا نام ) جسے بعد میں ترکوں نے سلطان محمد فاتح کی قیادت میں 1453 میں فتح کیا-.
Leave a Reply