قاسم لمز کا گریجویٹ تھا.اسکے دوست اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے سلسلہ میں ملک سے باہر تھے. پر قاسم نے ملک میںرہنے کا فیصلہ کیاتھا. وہ ماں باپ کا اکیلا بیٹا تھا. سو اب وہ اس عمر کو پہنچا تھا جب نوجوان باپ کا کاندھا بنتے،جب مائیں بیٹوں کیلئے چاند سے بہو لانے کی خواہش دل میںپالتی ہیں.
وطن بھی تو ماں کی مانند ہوتا ہے. شاید وطن کی مٹی کی خوشبو بھی اس قابل نوجوان کو پکڑی ہوئے تھی.پر اس مٹی میں اتوار کی رات ایک خون کا قطرہ ٹپکا جس کی اس مٹی نے مانگ نہیںکی تھی. یہ قطرہ قاسم اعوان کے خون کا تھا جو درندوںکی فائرنگ کے باعث نوجوان جسم سے ٹپک پڑا تھا.
صحت مند نوجوان گولیوںسے چھلنی ہونے کے بعد دو دن ہسپتال کے بستر پررہا اور ماں باپ رب کے حضور سجد ے میں.پر وہ بدھ کے روز اپنے رب کو پیارا ہو گیا تھا. قاسم پیچھے سوال چھوڑ گیا تھا کہ آخر کیوں؟
آخر کیوں ایک ماں سے اس کے جگر کا ٹکڑا چھین لیتے ہو؟ آخر کیوں ایک باپ سے اس کے بڑھاپے کا سہارا چھین لیتے ہو؟ آخر کیوںایک بہن سے اس کی سب سے بڑی طاقت چھین لیتے ہو؟
مزید پڑھیں: اسلام آباد: یونیسیف عہدیدار اور 16 سالہ لڑکی سے زیادتی
آخر کیوںایک بھائی سے اس کا سب سے اچھا دوست چھین لیتے ہو؟ آخر کیوںایک بیوی سے اسکا مجازی خدا چھین لیتے ہو؟ آخر کیوںہنستے کھیلتے بچوں سے ان کا باپ چھین لیتے ہو؟
اس خبر کے آنے کے بعد ہر انسان جو اپنے رتبے سے گرا نہیں وہ گزارش کرتا ہے کہ خدارا بس کردو!
بس کردو کہ اب ہم سے روتی ہوئی مائیںنہیںدیکھی جاتیں. خدارا بس کردو کے اب بوڑھے کاندھے نوجوان لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے ہیں.
خدارا بس کردو کہ نوجوان بیواؤں کی فہرست ہے کہ طویل ہوئی جاتی ہے . خدارا بس کردو کہ اب جب چھوٹے بچے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے بابا کدھر ہیں؟ تو ہم جواب نہیںدے پاتے.
کاش کے کوئی ماںسے پوچھے کہ بیٹا کیسے جوان ہوتا ہے؟ کاش کے کوئی باپ سے پوچھے کے وہ بچہ جسے وہ راہ چلتے کانٹا بھی نہ چبھنے دے اسکی میت اپنے کندھوںپراٹھانا کتنا بوجھ محسوس ہوتا ہے؟
اپنے بچپن کے دوست کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرتے ہوئے نوجوان سوال کرتے ہیں : ” ہم کس کے ہاتھ پر قاسم کا لہو تلاش کریں؟”