نیا بجٹ پر غریب کے وہی پرانے سوال

ملک میں نئے وفاقی بجٹ‌کی تیاریاں‌عروج پر ہیں اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ دس جون تک حکومت نیا بجٹ پیش کردے گی یا تاریخ سامنے آ جائے گی. تاہم نیا بجٹ آنے پر غریب وہی پرانے سوال دہرا رہا ہے، ہم اپنےگھر کا بجٹ کیسے بنائیں؟

آج سے چند سال قبل تک عوام کو بجٹ کے بعد مشکل حالات کا سامنا کرناپڑتا تھا لیکن گزشتہ تین چار سال سے عوام کیلئے مشکلات میں‌مزید اضافہ ہوا ہے. اب سال میں بجٹ ایک بار نہیں‌، دو سے تین بار آتا ہے. حکومت اسے منی بجٹ کا نام دیتی پر عوام کیلئے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہوتا ہے.

رواں سال پاکستان تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے. ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے جبکہ حکومت مہنگائی میں‌پسی عوام پر ایک کے بعد ایک بم گراتی جار ہی ہے.

گزشتہ ہفتے حکومت نے پیٹرول کی قیمتوں میں 60 روپے فی لیٹرتک کا اضافہ کیا جو ملکی تاریخ کا سب سے بڑ ااضافہ ہے. اسی طرح بجلی ا ور گیس کی قیمتوں‌میں بھی ریکارڈ‌اضافے کیئے گئے.

مہنگائی میں پسی عوام کیلئے واحد سہارا یوٹیلٹی سٹورز بھی ہاتھ سے نکل گئے. حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں تیل گھی کی قیمتوں میں‌200 روپے سے زائد کا اضافہ کردیا جبکہ آٹا سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کے نرخ بھی مارکیٹ سے زیادہ ہو گئے. یوں‌عملی طورپر یوٹٰیلٹی سٹورز ختم ہو گئے بس اعلان باقی ہے.

مزید پڑھیں: حکومتی خرچ پر اس سال 200 لوگ حج کریں گے

حکومت بجٹ میں‌نئے ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اب حکومت کے پاس صر ف یہی معاشی پالیسی باقی ہے کہ جو بھی اکٹھا کیا جائے وہ عوام کی جیب سے اکٹھا کیا جائے.

ماہانہ پچاس ہزار روپے تک کمانے والے ملازمین کیلئے دو وقت کی روٹی مشکل ہور ہی ہے تو ایسے میں‌20 ہزار یا اس سے کم ماہانہ کمانے والا مزدور طبقہ سوال کر رہا ہے کہ ہم اپنے گھر کا بجٹ کیسے بنائیں؟

غریب کی ماہانہ مزدوری صرف یوٰٹیلیٹی بلز کی ادائیگی میں‌ختم ہورہی ہے. باقی اخراجات کیلئے ایک سفید پوش شخص کے پاس کیا بچتا ہے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے.

پاکستان میں‌ٹیکس دینے والے طبقے کیلئے مشکلات ٹیکس نہ دینے والے سے کہیں زیادہ ہیں یہی وجہ ہے پاکستان میں ٹیکس چوری اب بہت عام سی بات ہے.

صابن کی چکی سے لیکر دال روٹی تک ایک عام شہری ٹیکس دیتا ہے . جب یہی ٹیکس کا پیسہ حکومتی خزانے میں آتا ہے تو اشرافیہ انہی پیسوں سے عیاشی کرتی ہے.

نئے وفاقی بجٹ میں عوام پر کتنے نئے ٹیکس لگیں‌گے یہ خوف ابھی باقی ہے. مہنگائی جو پہلے کبھی بجٹ کے بعد 20،10 فیصد بڑھا کرتی تھی اب بجٹ سے پہلے ہی 300،200 فیصد بڑھ چکی ہے.پر غریب کی اجرت اور چھوٹے ملازم کی تنخواہ وہیں کھڑی ہے.

ملک کے وزیر خزانہ اور ماہر ین معاشیات کا لقب رکھنے والوں سے اگر غریب کے گھر کا بجٹ بنوایا جائے تو ان کی قابلیت یقینی طور پر جواب دے جائے گی.

غریب کی مشکل میں کیا کمی ہوگی ؟ کیا غریب ہفتہ بھر سبزی دال پر گزارا کرے گا یا گوشت بھی کبھی اس کی ہنڈیا کی زینت بنے گا؟ غریب کی دیہاڑی میں کتنا اضافہ ہو گا. کیا اشرافیہ اپنی عیاشی کم کر کے ملکی خزانے کو فائدہ پہنچائے گی یا ہمیشہ کی طرح غریب کا ٹیکس کا پیسہ ہی ملکی خزانے کا پیٹ‌بھرے گا.

نیا بجٹ عوام کی ذہنوں‌میں وہی پرانے سوال لارہا ہے جس کے جواب وہ برسوں سے ڈھونڈرہےہیں‌پرآج تک جواب نہیں‌ملا.