پاکستان میں ان دنوں ایک بار پھر سے دورہ اسرائیل کی گونج سنائی دے رہی ہے . گزشتہ ہفتے اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے عالمی اقتصادی فورم پر گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ان سے جنوبی ایشیاءسے آئے ایک وفد نے دو ہفتے قبل ملاقات کی تھی جس میںدو پاکستانی بھی شامل تھے.
انہوں نے ملاقات کرنے والے افراد کے نام تو ظاہر نہیںکیئے تاہم انہوںنے اس ملاقات کو خوش آئند قرار دیا.
ان سے قبل 11 مئی کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے پاکستانی وفد کی اسرائیلی حکو مت سے پاکستانی وفد کی ملاقات کی خبر بریک کی تھی اور ساتھ ہی انہوں نے وفدمیںپی ٹی وی کے اینکر وقار احمد قریشی کی موجودگی پر سوال بھی اٹھائے .
جس پر شیر یں مزاری اور وقار احمد قریشی کے درمیان ٹویٹر پر نوک جھونک چلتی رہی . تاہم اسرائیلی وزیر اعظم کی پاکستانی وفد سے ملاقات کی تصدیق کے بعد سے پاکستا ن میںایک بار ٔ پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دوسرے بیانات دوبارہ سے دیکھنے کو مل رہےہیں.
مزید پڑھیں: یوم تکبیر: دنیا سن لے ہم کمزورنہیںہیں
گزشتہ روز چارسدہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر تے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پہلی بار پاکستانی وفد اسرائیل گیا ہے جس میںسرکاری ٹی وی کا ایک ملازم بھی شامل ہے.
عمران خان نے الزام عائد کیا کہ غلام حکومت کسی بھی حد تک جا سکتی ہے یہ اب اسرائیل کو تسلیم کرنے جار ہے ہیں.
اگرچہ ترجمان دفتر خارجہ اور وفاقی وزیر احسن اقبال اس ملاقات کو سرکاری یا حکومتی وفد کی ملاقات نہ ہونے کی تصدیق کر رہے ہیںتاہم سوشل میڈیا پر پاکستانی نژاد امریکی شہری انیلا احمد کی احسن اقبال اور ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز سے ملاقات کی تصاویر شیئر کر رہے ہیں.
انیلا احمد اس وفد کا حصہ تھیں جس کااقرار انہوں نے 12 مئی کو ٹویٹر پر اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے کیا جس میں وہ اسرائیل صدر اسحاق ہرزوگ کو اپنے والد کی قائد اعظم پر لکھی گئی کتاب بطور تحفہ پیش کر رہی ہیں.
ایسے میں ایک بار پھر پاکستان میں اسرائیل کے معاملے پر بحثچل نکلی ہے. سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف کی قائدین اور کارکن حکومت پر دورہ اسرائیل کی سرپرستی کاالزام عائد کر رہے ہیںتو دوسری جانب تحریک لبیک کے کارکنان کو بھی مخاطب کر کے جملے کسے جار ہے ہیں.
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا اس معاملے پر واضح قول موجود ہے جبکہ تمام سیاسی قائدین بھی بارہا ان کے اس بیان کی توثیق کرتے رہتے ہیں. موجودہ حکومت نے بھی واضحکیا ہے کہ اسرائیل کے حوالے کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیںآئی .
سیاسی اختلافات میں تمام سیاسی جماعتوںکو اس قدر ضرور محتاط ہونا چاہیے کہ ایسے معاملات کو عوامی کے سپرد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے عوامی جذبات مجروح ہونے کےساتھ ساتھ نفرت بھی پھیلتی ہے جس کا صدیوں قلع قمع کرنا مشکل ہو جاتا ہے.
اور اس کے علاوہ بھی سیاست میںیہودیوںکی ایجنٹ جیسے جملے زبان زد عام ہو جاتے جو سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیتے.
“پاکستانی سیاست میںدورہ اسرائیل کی گونچ” ایک تبصرہ
تبصرے بند ہیں